تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے پندرہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں ’’اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ طاعةَ الخاشعينَ وَاشْرَحْ فيہ صَدري بِانابَۃ المُخْبِتينَ بِأمانِكَ ياأمانَ الخائفينَ‘‘
’’خدایا! اس مہینے میں اپنے خاشع بندوں والی اطاعت عطا کر،اور وہ سعہ صدر عطا کر جو تیرے خاکسار اطاعت شعاروں والا ہے، تیری امان کے واسطے، اے ڈرے سہمے ہؤوں کی امان۔
’’اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ طاعةَ الخاشعين‘‘۔خدایا! اس مہینے میں اپنے خاشع بندوں والی اطاعت عطا کر۔
خشوع یعنی تواضع و انکساری۔ انسان کے اندر سامنے والے کی عظمت اور برتری کا احساس پیدا ہو جائے۔ یہ خشوع خدا اور روز قیامت پر ایمان اور یقین کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر خاشعین کی خصوصیات بیان ہوئے ہیں۔
’’وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ‘‘ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو اور یہ خاشعین کے علاوہ کے لئے سخت ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت ۴۵)
’’قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‘‘ مومنین کامیاب ہو گئے جو اپنی نماز میں خاشع ہیں (سورہ مومنون۔ آیت ۱، ۲)
ملا احمد نراقی المعروف بہ فاضل نراقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: نماز میں خشوع کا مطلب انسان کے دل میں نماز کے علاوہ کوئی خیال نہ آئے۔ نمازی کو اس بات کا خیال رہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، کس سے کہہ رہا ہے، کس کے سامنے کھڑا ہے۔
نماز ہی نہیں بلکہ جب وضو کرے تب بھی ذہن میں خیال رہے کہ کس کی بارگاہ میں جانے والا ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے کہ ’’ إنّ الحَسنَ بنَ عليٍّ عليهما السلام كانَ إذا قامَ في صَلاتِهِ تَرتَعِدُ فَرائصُهُ بينَ يَدَي رَبِّهِ عَزَّ و جلَّ، و كانَ إذا ذَكَرَ الجَنّةَ و النارَ اضطَرَبَ اضطِرابَ السَّليمِ‘‘۔ امام حسن علیہ السلام جب نماز کے لئے بارگاہ خدا میں کھڑے ہوتے توآپ کا بدن کانپ جاتا جب جنت و جہنم کی گفتگو ہوتی تو ایسے بے چین ہو جاتے جیسے ایک سانپ کا کاٹا بے چین ہوتا ہے۔ (میزان الحکمہ. ج۵ ص۳۸۲ )
روایت میں ہے کہ ’’انَ الحَسنُ عليه السلام إذا تَوَضَّأ تَغَيَّرَ لَونُهُ، و ارتَعَدَت مَفاصِلُهُ، فقيلَ لَهُ في ذلكَ، فقالَ : حَقٌّ لِمَن وَقَفَ بينَ يَدَي ذِي العَرشِ أن يَصفَرَّ لَونُهُ و تَرتَعِدَ مَفاصِلُهُ‘‘ جب امام حسن علیہ السلام وضو سے فارغ ہوتے تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور بدن کانپ جاتا۔ جب پوچھنے والے نے اسکی وجہ پوچھی تو فرمایا: حق ہے کہ جو بھی صاحب عرش خدا کی بارگاہ میں کھڑا ہو اس کا رنگ زرد ہو جائے اور بدن کانپ اٹھے۔ (بحارالانوارج ۸۴، ص ۱۵۸)
باوجود اس کے کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس سواری موجود تھی لیکن آپ نے ۲۵ حج پاپیادہ انجام دئیے تا کہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا حاصل ہو سکے۔ (خاندان وحی۔ صفحہ ۳۲۳) مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا فاصلہ تقریبا ۴۵۰ کلو میٹر ہے۔امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے ایک بار، دو بار نہیں بلکہ ۲۵ بار رضائے خدا کی خاطر پیدل تشریف لے گئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ’’أنّ الحسن بن علی بن أبی طالب کان أعبدالنّاس فی زمانه، و أزهدهم و أفضلهم، و کان إذا حجّ حجّ ماشیاً، و ربّما مشی حافیاً، و کان أذا ذکرالموت بکی، و اذا ذکرالقبر بکی، و اذا ذکر البعث و النشور بکی، و اذا ذکر الممرّ علی الصراط بکی، و اذا ذکر العرض علی اللّه ـ تعالی ذکره ـ شهق شهقهً یعشی علیه منها‘‘ بے شک امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے سب سے بڑے عابد (عبادت کرنے والے)، سب سے بڑے زاہد اور سب سے افضل انسان تھے۔ پیدل اور کبھی برہنہ پا حج انجام دیا۔جب بھی آپ کے سامنے موت اور قبر کا ذکر آتا تو گریہ فرماتے، جب قیامت اور حشر ونشر کا تذکرہ ہوتا تو گریہ فرماتے، جب پل صراط سے گذرنے کا ذکر آتا تو گریہ فرماتے، جب بارگاہ خدا میں نامہ اعمال پیش ہونے کی بات آتی تو آپ پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ تمام چیزیں آپ کے ذہن اور نظر سے پوشیدہ ہو جاتی تھیں۔ (امالی صدوق، ص ۱۵۰ )
خشوع کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انسان صرف اللہ کی عبادت میں خاشع ہو بلکہ عبادی زندگی کے علاوہ بھی اسکی زندگی میں خشوع پایا جائے۔ جس طرح اللہ کے سامنے خاشع ہو اسی طرح اس کے بندوں سے بھی خشوع سے پیش آئے۔ چونکہ آج کی تاریخ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی تاریخ ہے لہذا آپ کی سیرت کا تذکرہ ہی بہتر ہے۔
واقعہ مشہور ہےکہ جب شام کا رہنے ولا مدینہ آیا اور اس نے اپنی جہالت اور نادانی کے سبب آپ ؑ کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے اپنے اخلاق سے ایسا برتاو کیا کہ دشمن دوست ہو گیا اور آپ کا یہ عمل دنیا کے تمام اہل خشوع کے لئے نمونہ عمل بن گیا۔
عدم معرفت کے سبب دنیا میں لوگ صرف عبادت ہی کو بندگی اور خشیت کا مقام سمجھتے ہیں اور عبادت کے ہنگام اس کے ضرورت مند بندوں سے لا تعلقی کو ہی ہنر سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ عبادت و بندگی میں جہاں انسان اللہ کے حقوق کی ادائگی سے غافل نہ ہو اسی طرح اس کے محتاج بندوں کی مدد سے بھی غافل نہ رہے۔ امام حسن علیہ السلام مولا علی علیہ السلام کے فرزند اور جانشین تھے آپؑ نے بھی سیرت کے ویسے ہی نمونے پیش کئے جیسے آپؑ کے والد ماجد نے پیش کئے تھے کہ مسجد میں سب نماز جماعت میں مصروفیت کو ہی اللہ کی اطاعت سمجھتے رہے اور اس کے محتاج بندے سے غافل رہے ۔ لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نہ اللہ کی عبادت سے غافل ہوئے اور نہ ہی بندے کی خدمت سے اور حالت رکوع میں انگوٹھی فقیر کو عطا کر کے اس کی مدد فرمائی۔اسی طرح روایت میں ہے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام مسجد الحرام میں معتکف تھے (اعتکاف میں تھے۔ ) ایک ضرورت مند آیا اور اس نے فریاد کی کہ فرزند رسولؐ آپ ہماری مدد فرمائیں۔ میں فلاں شخص کا مقروض ہوں اگر اس کا قرض ادا نہیں کیا تو وہ مجھے قیدخانہ میں بھیجوا دے گا۔ امام ؑ نے فرمایا: میرے پاس اس وقت تیرے قرض کی ادائیگی کے لئے رقم نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ تو کم از کم اس سے مہلت تو دلوا دیں۔ امام ؑ نے یہ سنا تو مسجد کے باہر جانے لگے تو ایک شخص نے کہا کہ مولاؑ شاید آپؑ بھول گئے کہ اعتکاف میں ہیں۔ امام ؑ نے فرمایا: میں بھولا نہیں ہوں بلکہ مجھے یاد ہے کہ میں اعتکاف میں ہوں۔ لیکن میں نے اپنے والد بزرگوار سے سنا اور انہوں نے میرے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ۔ آپؐ نے فرمایا: جو بھی اپنے برادر دینی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوشش کرے گا تو گویا اس نے ۹۰۰۰ سال اللہ کی عبادت کی ۔ اس مدت میں دنوں میں روزہ رکھا اور راتوں کو نمازیں پڑھیں ۔ (میزان الحکمہ)
’’وَاشْرَحْ فيہ صَدري بِانابَۃ المُخْبِتينَ بِأمانِكَ ياأمانَ الخائفين‘‘ اورسعہ صدر عطا کر اپنے خاکسار اطاعت شعاروں کی سی توبہ کرنے والا، تیری امان کے واسطے، اے ڈرے سہمے ہؤوں کی امان۔
مخبتین یعنی تواضع کرنے والے، انکساری کرنے والے، خضوع و خشوع کرنے والے، خاکسار مومنین ۔ قرآن نے مخبتین کے سلسلہ میں فرمایا: ’’ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ۔ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ‘‘ اور ان عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں۔ اور جو ان مصائب و آلام پر صبر کرنے والے ہیں جو انہیں پہنچتے ہیں اور جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے رہتے ہیں۔ (سورہ حج ، آیت ۳۴، ۳۵)
خدا یا: ہمیں ایمان کے ان صفات سے آراستہ کر جو تیرے محبوب صفات ہیں۔